حوزہ نیوز ایجنسی। معروف کتاب "زندگی با خورشید هشتم" (آٹھویں سورج کے ساتھ زندگی) کے مصنف جناب حجت الاسلام والمسلمین حجت الله سروری نے حوزہ نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم ترین امور میں سے ایک ان کا مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی تاریخی ، مذہبی ، سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اور .... مختلف جہات سے بررسی کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معروف مصنف اور محققِ حوزہ علمیہ نے کہا: آٹھویں امام علیہ السلام کی ایران کی طرف ہجرت کو اسے عظیم شیعہ ملک میں تبدیل کرنے اور ایرانی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر معرفی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: اگرچہ مامون ہمیشہ اپنی حکومتی بنیادوں کے استحکام کی خاطر لوگوں کی درمیان حضرت امام رضا علیہ السلام کی مقبولیت کو کم کرنے اور معاشرے میں ان کے علم و عصمت پر سوال اٹھانے کی فکر میں لگا رہتا۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا کہ کسی طرح امام علیہ السلام کے علمی مقام اور لوگوں کے درمیان محبوبیت کو مناظرات وغیرہ کے ذریعہ زیر سوال لا سکے یا دوسرے لفظوں میں ان کی تحقیر کے اسباب مہیا کر سکے لیکن مامون کی یہ تمام سازشیں امام علیہ السلام کے حقیقی علم کو درک نہ کرنے کی وجہ سے اس کی شکست کا سبب بنتیں اور ہر مناظرہ میں امام علیہ السلام کی فتح کے سبب امام علیہ السلام کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا بلکہ یہی چیز باعث بنتی کہ امام علیہ السلام اس زمانے میں ایک علمی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔
حجت الاسلام والمسلمین سروری نے کہا: میری نظر میں ایران میں آٹھویں امام علیہ السلام کی موجودگی کے اہم ترین ثمرات اور برکات میں سے ایک خود "امام علیہ السلام کا وجود" ہے۔ حقیقت میں حضرت امام رضا علیہ السلام کو شیعوں اور عالم اسلام کے سیاسی ، علمی اور ثقافتی انتظام کے بہترین اور عظیم نمونہ کے طور پر معرفی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو حضرت امام رضا علیہ السلام کی ہجرت کی وجہ سے ایران میں تہذیب و تمدن کی بڑی تبدیلی کی ایک اہم وجہ امام علیہ السلام کے تشیع میں تمایل رکھنے والے ایرانیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور خراسان کو ایک عظیم شیعہ مرکز میں تبدیل کرنے اور شیعوں کی مذہبی اور نظریاتی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی انتھک کوششیں تھیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگرچہ ولی عہدی کا منصب مکمل طور پر رسمی تھا اور امام علیہ السلام نے اس عہدہ کے صرف نام ہی کو قبول کیا تھا اور ان کا حکومتی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی ان کے لئے ایک پیچیدہ سیاسی جنگ کے ایک اہم تاریخی تجربہ کے طور پر تھی کہ جس کی فتح یا ناکامی سے شیعوں کی تقدیر کا تعین ہونا تھا۔ درحقیقت یہ مکتب تشیع کی مضبوطی اور ترقی کے لئے سب سے اہم موڑ کے طور پر تھی۔
حجت الاسلام والمسلمین سروری نے کہا: آٹھویں امام علیہ السلام کی طرف سے ولی عہدی کی قبولیت اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے علماء کے ساتھ تمام مناظروں میں ان کا غلبہ ایران میں مکتب تشیع کے استحکام اور مضبوطی کا سبب بنا۔
اس دینی مصنف اور محقق نے کہا: امام علیہ السلام نے مرو میں اپنے قیام کے دوران خراسان کے لوگوں کے افکار اور عقائد کی مضبوطی کے لئے بڑی کوششیں کیں اور مناظرات کے علاوہ اپنے گھر اور مسجد مرو میں علمی دروس کا انعقاد کر کے انہوں نے معرفت اور دین سے آگاہی کو فروغ دیا۔ آپ علیہ السلام دوردراز سے اپنی زیارت کو آئے اپنے شیعوں اور پیروکاروں کے لئے علمی، کلامی اور حدیثی دروس کا انعقاد کرتے اور اس طرح ان کے معارف علمی اور دینی میں استحکام بخشتے اور ان کے مختلف مسائل اور شبہات کا جواب دیتے۔